اس دوران ہم نےدریائے سندھ کے کنارے ایک جگہ کیمپ لگائے ہوئے تھے اور دوپہر کا کھانا کھارہے تھے کہ اچانک ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ وہ دور کوئی چیز تیر رہی ہے ہم سب نے اٹھ کر دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا‘ ہم سب پھر بیٹھ گئے اور کھانا کھانےلگے
ملک طارق عزیز اعوان‘ اٹک
کبھی کبھی ایسے واقعات ہمیں دیکھنے اور سننے کو مل جاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور زبان سے خودبخود ہی خدا کی حمد وثناء جاری ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ مجھے سننے کو ملا جو کہ میں آپ کو لکھ رہا ہوں‘ مجھے اپنی والدہ کے علاج کےسلسلے میں کچھ دن اپنے محکمے کے ہسپتال میں رہنا پڑا۔ وہاں میری ملاقات اپنے ایک فوجی بھائی سے ہوئی۔ اس دوران اکثر اس سے سروس کے دوران کے واقعات پر بات چیت ہوتی رہتی۔ یہ واقعہ بھی اس نے مجھے سنایا تھا جس کا وہ خود عینی شاہد تھا۔ بقول اس کے 90 کی دہائی میں سندھ میں جو سیلاب آئے تو ہماری ڈیوٹی لگ گئی کہ اندرون سندھ کے لوگوں کو سیلابی علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے۔ اس دوران ہم نےدریائے سندھ کے کنارے ایک جگہ کیمپ لگائے ہوئے تھے اور دوپہر کا کھانا کھارہے تھے کہ اچانک ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ وہ دور کوئی چیز تیر رہی ہے ہم سب نے اٹھ کر دیکھا مگر کچھ نظر نہ آیا‘ ہم سب پھر بیٹھ گئے اور کھانا کھانےلگے مگر پھر ہمارے اس ساتھی نے کہا کہ ادھر کوئی چیز ہے‘ ہم سب نے پھر اٹھ کر دیکھا مگر پھر بھی ہمیں کچھ نظر نہ آیا‘ ہم پھر بیٹھ گئے اور کھانا کھانے لگے مگر ہمارے اس ساتھی نے کھانا کھانا چھوڑ دیا اور ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے تجسس پر ہم نے بھی کھانا چھوڑ دیا اور ادھر دیکھنے لگا۔ اس کے تجسس پر ہم نے بھی کھانا چھوڑ دیا اور اپنے ایک ساتھی کو کہا کہ وہ دوربین لے آئے اس سے دیکھتے ہیں‘ وہ بھاگ کر دوربین لے آیا‘ ہمارے ایک ساتھی نے دوربین سے اس جگہ دیکھا جدھر دوسرا ساتھی کسی چیز کے ہونے کی بات کررہا تھا۔ دیکھا تو واقعی ہی کوئی چیز ہے جب دریا کی لہریں اوپر کو اٹھتی ہیں تو وہ اوپر آتی ہے اور جب نیچے جاتیں تو غائب ہوجاتی ہے‘ ہم نے فوراً اس بات کی اطلاع اپنے آفیسر کمانڈنگ کو دی جس نے آرڈر دیا کہ فوراً کشتیاں دریا میں ڈالی جائیں اور اس چیز تک پہنچا جائے ہم نے کشتیاں دریا میں ڈالیں اور اس طرف روانہ ہوگئے‘ جب ہم اس کے پاس پہنچے تو خدا کی قدرت کا ایک عجیب ہی نظارہ دیکھا‘ وہ ایک عورت تھی جو ڈوب کر مرچکی تھی اس کے سینے پر ایک بچہ تھا جو زندہ تھا اور ماں کے دونوں بازو اس بچے کے گرد تھے اور ان دونوں بازوں پر ایک سانپ بل کھائے لیٹا ہوا تھا تاکہ بازو نہ کھلیں اور بچہ سینےسے نہ گرے۔ ہم نے اس عورت کو اٹھا کر کشتی میں ڈالا اور کنارے پر لا کر سٹریچر پر ڈالا تو سانپ خودبخود ہی بل کھول کر وہاں سے جانے لگا ہمارے چند ساتھیوں نے سانپ کو مارنا چاہا مگر ہمارے خطیب صاحب نے منع کردیا کہ اس کو مت ماریں یہ عام سانپ نہیں ہے۔
ہم نے اس کی اطلاع اپنے اعلیٰ آفیسر کو دی جنہوں نے آس پاس کے علاقے میں اعلان کروائے کہ اگر یہ عورت کسی کی رشتہ دار ہو تو لاش اور بچہ آکر لے جائیں مگر کوئی نہ آیا شاید کہیں دورسے یہ عورت اور بچہ بہہ کر آئے تھے۔ بہرحال اہل علاقہ کی مدد سے اس عورت کو کفن وغیرہ دے کر جنازہ پڑھا کر دفنا دیا گیا اور بچہ ہمارے پاس رہ گیا۔ اس بات کا پتہ علاقے کے ایک بڑے زمیندار کو چلا تو وہ ہمارے اعلیٰ آفیسر کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا دولت‘ جائیداد بہت ہے مگر اولاد کی نعمت سے محروم ہوں اگر آپ یہ بچہ مجھے دے دیں تو میں اس کو اپنا بیٹا بنالوں گا۔ لہٰذا ضروری کاغذی کاروائی کروانے کے بعد یہ بچہ اس زمیندار کو دے دیا گیا جسے اس نے اپنا بیٹا بنا لیا‘ ہم جتنا عرصہ وہاں رہے وہ زمیندار اس بچے کو ملوانے ہم سب سے لاتا رہا۔ اب ماشاء اللہ وہ بچہ بڑا ہوگیا ہوگا اور اپنے علاقے کا رئیس ہوگا۔ مگر اسے پتہ بھی نہیں ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا بیت چکی ہے‘ اسے کہتے ہیں کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں